Lecture 1


علم نافع کی سب بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ انسان کے وجود کو با ادب بنا دیتا ہے ۔ اور ادب تقسیم کرنے والے کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے پیرو کاروں کو با ادب بنا دیتا ہے۔

یہ ادب بڑا ثمر خیز ہوتا ہے ۔ یہ ادب ہی تھا جب ایک مرید اپنے پیر کی جوتیوں کو سر پر رکھ کر نکلتا ہے تو رستے میں ایک تاجر اس جوتیوں کے عوض اس مرید کی ضروریات سے بڑھ کر قیمت لگاتا ہے ۔ ادب کا ایک واقعہ میرے پیر و مرشد حضرت چھوٹے لالہ جی سرکار کا ہے ۔ میرے ہم عمر لوگ جانتے ہیں راولپنڈی کی مال روڈ پر جہاں ای ایف یو کی بلڈنگ ہے ۔ اس کے سامنے ایک پٹرول پمپ ہوا کرتا تھا۔ حضرت پیر سید مہر علی ان کے بعد بابو جی سرکار اور ان کے بعد لالہ جی دونوں بھائی بھی اس پٹرول پمپ روزانہ شام کو ایا کرتے تھے۔ اس پمپ پر میرے پیر و مرشد سے ایک نوجوان نے سرگوشی کی ۔ تھوڑی دیر بعد حضرت لالہ جی نے اپنے پرس سے سو سو روپے والے دو نوت نکالے اور اس نوجوان کو عطا فرما دیے ۔ نوجوان کو مگر گلہ تھا کہ اس کا کام دو سو روپے سے نہیں ہو پائے گا ۔ مجھے اس نوجوان کی شکل اور الفاظ یاد رہ گئے ۔ میرے مرشد کے انتقال کے بعد میں اسی پٹرول پمپ والی جگہ سابقہ پٹرول پمپ کے مالک کے بیٹے کے دفتر میں گیا تو اس کے مہمان کو میں نے پہچان لیا کہ عمر رسیدہ شخص وہی نوجوان ہے جس کو دو سو روپے عطا ہوئے تھے۔ اس نے اپنی گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے جیب سے اپنا پرس نکالا اور مجھے سو روپے کا وہ ایک نوٹ دکھاہا دوسرے نوٹ کے بارے اس نے کہا اسی نے یہاں تک پہنچایا ہے ۔ 

رزق دینے والا رزاق خود ہے مگر ادب کے اپنے ثمر ہوتے ہیں ۔ اس کا با شرع ظاہر اولاد کی تعلیم کا رخ اور گھریلو رہن سہن کے علاوہ اس کے دوستوں اور احباب بھی چنیدہ ہو چکے ہیں ۔ ان ہی صاحب کا کہنا ہے کہ بعض اوقات ایک نظر ہی انسان کو تبدیل کر کے رکھ دیتی ہے ۔ 


 ایک بار ایک  نوجوان نے مجھ  سے سوال کیا کہ دعا کی حقیقت کیا ہے ۔ IT کے یونیورسٹی کے طالب علم کو بتایا  ۔ دعا لکھے ہوئے کو بدل دینے کا نام ہے ۔ جیسے اپ کپمیوٹر پر کچھ لکھ رہے ہو جس لکھائی میں عبارت، اعداد۔ تصویر اور ویڈیو شامل ہو پھر اپ نے اس میں کچھ ترمیم کرنی ہو تو اپ عبارت میں سے کچھ کاٹ دین یا اعداد میں کچھ اضافہ کر دین یا تصویر کا سائز چھوٹا بڑا کر دیں یا ویڈیو کو ایڈیت کر دین تو کمپیوٹر اسی ترمیم کو ایسے ایڈ جست کر لیتا ہے کہ ہر لفظ ، نقظہ اور پکسل اپنی اپنی جگہ پر ری ایڈ جسٹ ہو جاتا ہے ۔ انسان کی تقدیر لوح محفوط پر لکھی ایسی تحریر ہے جس کے ساتھ کائنات کے بہت سارے معاملات پیوستہ ہیں ۔ رزق کی تبدیلئ، رشتوں کی ترتیب، بلاوں سے نجات، خوشیوں کے لمحات کو دعا ایسے تبدیل کر دیتی ہے جیسے اپ کمپیوٹر پر بیٹھ کر اپنے لکھے کو ایڈیٹ کرتے ہیں ۔ مگر اپ کو معلوم ہے اپ کا یہ عمل کپمیوٹر کی میموری میں کتنی بڑی تبدیل لاتا ہے ۔ دعا مقدر ضرور بدلتی ہے مگر صرف زمین پر ہی نہیں بلکہ کاہنات میں  تبدیلی پیدا ہوتی ہے مگر قدرت اسے ایڈجسٹ کرتی ہے ۔ اس ایڈجسٹمنٹ کے لاجک کو سمجھنے والا ہی ایڈیٹر ہو سکتا ہے۔ عام مسلمان اس لاجک سے واقف نہ بھی ہوتو اللہ کا ولی ، اس لاجک کو سمجھتا ہے ۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے اصحاب کے وقت میں تو ولیوں کا ذکر نہیں ملتا پھر یہ ولی کہاں سے ا گئے ۔ سمجھنے کی بات ہے کائنات میں رسول اللہ کا اعلی مقام ہے ۔ رسول اللہ کے اصحاب کا مقام ہے ۔ اور ہمیں معلوم ہے نہ کوئی صحابی رسول اللہ کے مقام تک پہچ سکا نہ کوئی ولی صحابہ کے مقام کو چھو سکا ۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے ہر صحابی ولی تھا جیسے ہر ایم اے پاس میٹرک پاس کر چکا ہوتا ہے ۔ جو ایم اے پاس ہو اس یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ میٹرک پاس ہے بلکہ یہ بات اس کی ڈگری میں پوشیدہ ہے ۔ جن کو زندگی میں بتا دیا گیا ٓپ جنتی یو اس کی ولائت کا شک کیسے کیا جا سکتا ہے ۔ جس نے بدر والوں میں نام لکھوا لیا اس کو کسی اور رجسٹر میں نام لکھوانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ تقدیر کے رجسٹر کے اندراج دعا بدلتی ہے مگر اس کے لیے اس لاجک کا جاننا ضروری ہے جو اس ادراج میں تبدیلی کا سبب بنتا ہے۔ 

مگر کاتب تقدیر ان کے مقدر بھی بدلتا ہے جو نہ کسی لاجک کو جانتے ہیں ۔ نہ رجسٹروں اور تحریروں سے شناشا ہیں ۔ نہ وہ ایسے کلمات بیان کرنے کے قابل ہوتی ہیں جو سماعتون کو مرعوب کر سکے ۔ نہ ان کو ٓدم جیسی دعا یاد ہوتی ہے نہ ان کے پاس  دوادو جیسا حکمت ہوتی ہے نہ سلیمان جیسی فراست نہ ایوب جیسی دعا ہوتی ہے ۔ نہ یونس جیسے الفاظ بلکہ ان کے پاس سوائے اپنی محرومیوں کے کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ ان لوگوں کو اللہ تعالی نے ایک ایسے ہتھیار سے مسلح کر دیا ہے جو تقدیر کی تحریوں، مقدر کے رجسٹروں اور ملائک و ارواح کو دیے گئے احکام کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیتا ہے ۔ اور خالق کائنات مسرت و شادمانی سے اس الٹ پلٹ کو دیکھ رہا ہوتا ہے ۔ یہ ہتھیار ہے اللہ کی عظمت کے اعتراف کے بعد بے بس و لاچار بندے کی انکھوں سے ٹپکنے والے انسو کا ایک قطرہ۔  یہ ایسا ایڈجسٹر ہے جو خود بخود اکٹیویٹ ہوتا ہے ۔ اور خود ہی بڑی بڑی ایڈ جسٹ منت کر ڈالتا ہے ۔ بیت سارے انسو نہیں ایک صرف انسو کا ایک قطرہ جو انسان کی خاکساری ، لاچارگی، بے بسی کے اعتراف کے باعث اس کی انکھ سے تپک پڑتا ہے ۔ انسو مان کے سامنے بچے کے ہون، والدین کے سامنے اولاد کے ہوں ، ٖغم کی حالت میں بے بسی کے ہوں ، مسرت و شادمانی کے موقع پر خوشی کے ہوں ۔اپنے ارد گرد کے ماحول پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اللہ کے ہان بھی اس نمکین قطرے کی بڑی ہی وقعت ہے۔


یہ تو بے بس انسان کا ذکر ہے جو عام مسلمان کے گھر پیدا ہو کر مسلمان کہلاتا ہے۔ مگر اس سے تھوڑا اوہر بیٹھے مومن کا مقام یہ ہے اللہ تعالی اس کی فراست کا ذکر اپنی کتاب میں کر رہا ہے ۔ اپ تھوڑا اوپر نظر کریں تو اپ کو وہ عالم نظر ائے گا جس کو انبیاٗ کے علوم کا وارث کہا گیا ۔ نظر کو اور بلند کریں تو اللہ کا ولی نظر ٰائے گا۔ مومن بننے کے لیے کچھ عمل درکار ہوتا ہے ۔ عالم بننے کے لیے عشروں استادوں کی جوتیان سیدہی کرنی پڑتی ہیں ۔ ولی بننے کے لیے اپنے نفس کو اپنی ہی ہاتھوں سے کھلی انکھوں سے ذبع کرنا ہواتا ہے ۔ البتہ سرخیل مسلمیں و مومنین و علماو اولیا نبی ہوتا ہے جو اتنا بڑا ایڈیٹر ہوتا ہے کہ زمین پر کھڑے ہو کر اسمانوں میں تصرف کرتا ہے اور انگلی کے اشارے سے شق قمر کر کے کائنات کو دوبارہ ایڈجسٹ کر دیتا ہے ۔ 

یہ چھوٹی سے مثال ہے اس علم کی جو عام  ادمی اور نبی می ذات میں ہوتا ہے ۔ یہ سچ ہے نبی بازاروں میں نکلتے ، شادیوں کرتے اور معاملات بجا لاتے تھے مگر ان کو علم عطا کیا جاتا ہے ۔ علم کی اجارہ داری صرف علیم کے پاس ہے ۔ وہ کسی کو علم  دیتا ہےکہ سیکنڈ کے دسویں حصے میں مادے کو انرجی میں تبدیل کر کے دوسرے مقام پر پہچا کر پھر مادہ میں تبدیل کر کے تخٹ بلقیس بنا دے ۔ کسی کوتوفیق دیتا ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے۔ کسی کو توفیق دیتا ہے اس سے کلام کرے مگر ہمارے بنی وہ پر نور ہستی ہیں جن کو اللہ نے وقت روک کر بیت اللہ سے مسجد اْقصی تک سفر کرایا پھربلند فرما کر اپنی ذات کا شائد بنایا ۔ علم عطا کر کے نذیر کی مسند پر بٹھایا اور اپنے رب العالمین کے ہم وزن رحمت العالمیں کا لقب عطا فرمایا ۔ خود موطی کی کرسی پرمتمکن ہوا اوراپنے رسول کو قاسم کی سند عطا فرمائی۔ 



 

Comments

Popular posts from this blog

وحی الہی اور عقل

Lecture 2