Lecture 2


بابا بھلے شاہ نے کہا تھا  (علموں پئے رولے ہور) بھلے شاہ کا مقصد مقصد علم کی مذمت ہر گز نہیں تھا  بلکہ یہ بتانا مقصود  تھا کہ علم ایک سمندر ہے جب علم کا طالب اس میں اترتا ہے تو اس کو علمی سمندر میں ایک سے بڑھ کر دوسری پہیلی  دوسری حل کرنے کو ملتی ہے۔ طالب علم ابھی نبی اللہ داود  اور سلیمان  کے عدل کی گتھی سلجانے میں مصروف تھے کہ یوسف علیہ السلام کے کرتے نے حضرت یعقوب علیہ السلام کی انکھوں کو روشن کر کے علم کے پیاسوں کے سامنے ایک اور بھرا پیالہ رکھ دیا۔ابھی حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی معافی کا معمہ حل نہیں ہوا تھا کہ مچھلی کے پیٹ سے کے اندر سے اٹھنے والی فریاد کے جواب پر علماٗ ششدر رہ گئے۔مردوں کو زندہ کرنے اور ہاتھیوں کے اگے بڑہنے کے انکار پر توجیح ڈہونڈ بھی نی پائے تھے کہ فالج زدہ عاشق نے ایک قصیدہ لکھ کر اپنا  (بردا)  لہرایا دیا۔ حیرتوں کے کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ علم بٹا تو عالم بھی بٹ گئے۔ مگر علیم نے اول دن سے ابن آدم کو علم سیکھنے کا سلیقہ سکھا دیا تھا۔


ارضی علوم نظریہ پیش کر کے اس کی توضیح ڈہونڈتا ہے جب کامیاب ہو جاتے ہیں تو نظریہ کا کلہ ٹھوک دیا جاتا ہے۔ ایک مساوات معرض وجود میں آ جاتی ہے اور اصول طے ہو جاتا ہے۔ سماوی علوم مگر اس کے برعکس پہلے یقین پیدا کرتے ہیں۔ عقل دل میں وسوسہ پیدا کرتی ہے تو افلاک سے رجوع کر کے دل کا اطمینان مانگا جاتا ہے۔سماوی علم انتہائی سادہ تجربہ کرا تا ہے  اور مٹی کا انسانی ہاتھوں سے بنا ہو ا پرندہ اڑ کر پہاڑ پر جا بیٹھتا ہے۔حالانکہ ارواح کی ٹخلیق کا عمل اس کائنات کے وجود میں آنے سے پچاس ہزار سال قبل مکمل کر کے بادلوں میں متمکن ہو چکا تھا۔ علم کے طلباء حیران تھے کہ یہ روح کہاں سے آ گئی۔ 


فالج کی بیماری کا علاج پندرہ سالوں سے بہترین طبیب کر رہے تھے مگر جو کام طبیب نہ کر سکے خواب میں، دن کے اجالے میں نہیں بلکہ نیند کے دوران حالت خواب میں ایک ہاتھ جسم پر آتا ہے اور چشم زدن میں بوصیری بھلے چنگے ہو جاتے ہیں۔ بیدار ہو کر خود اٹھ کر وضو کرتے ہیں اور مسجد کا رخ کرتے ہیں۔خواب خیال ہوتا ہے۔ تسلیم کر لیتے ہیں کہ  یہ جاہلوں کی خوش عقیدگی ہے مگر اس بردے کو کہاں لے جاو گے جو ساری عمربربری  النسل ابو عبدللہ محمد بن سعید بن حماد بن حسن البوصیری  جو ابو العباس المرسی کے مرید نے اپنے سینے سے لگائے رکھی۔اور اس تاریخی حقیقت کو کہاں دفن کر و گے کہ اپنے وقت کے مشہور شیخ ابورجاء نے فرمائش کی تھی کہ بو صیری وہ رات والا قصیدہ ہمیں بھی سناو۔ 


علیم خدا کا ذاتی تمغہ ہے جیسے خدا کی ذات سوچوں اور عقلوں سے بالا ہے اسی طرح اس کا علم بھی کسی طالب علم کی رسائی میں آیا نہ آ سکے گا۔البتہ ہمارے رسول اللہ ﷺ کے تصرف شق القمر پر حیرت زدہ مسلمانوں کو ایک بردے نے وسوسوں میں ڈال رکھا ہے۔ حالانکہ صاف صاف بتا دیا گیا تھا کہ اس عالم میں نتیجہ پہلے آتا ہے اورتوجیحات بعد میں تلاش کی جاتی ہیں۔ 


معجزات و کرامات کے فلک سے اتر کر زمین پر آ جائیے۔ یہاں بھی عزت کی اجارہ داری اللہ اور اس کے رسول  ﷺ ہی کے پاس ہے۔ موطی کی قاسم کو عطا کردہ عزت کی ایک جھلک آپ کو اس واقعہ میں نظر آئے گی۔جو اس فقیر کے ساتھ انس سو اٹھتر میں دمشق میں پیش آیا۔دمشق کے وسط میں مسجد اموی کے صحن میں اس ہستی کی قبر ہے۔ صاحب قبر نے اپنی زندگی میں یمن کے ایک معروف خاندان میں شادی کا پیغام بھیجا۔خاندان نے مناسب سمجھا کہ رسول اللہ ﷺ  سے بلال بن رباح بارے پوچھ لیا جائے۔  جواب میں لسان رسالت نے جنتی کہہ کر بلال کی عزت پر ایسی مہر لگائی کہ پندرہ سو سال پر بلال کی قبر انور پر کھڑا تھا اور اپنے مصری گائیڈ سے پوچھا بلا ل بن رباح کون تھا اور اسکی قبر مسجد کے صحن میں کیوں ہے۔مصری کے اندر کا تاریخ دان تڑپ کر میرے سامنے آ کھڑا ہوا، اس کی زبان فرط عقیدت سے کانپ رہی تھی مگر اس کا دماغ حاضر تھااس نے بلال کا تعارف اس لمحے سے شروع کیا جب اللہ کے رسول نے ابوبکر کے غلام کو گلے سے چمٹایا ہوا تھا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ علی بن ابو طالب کہ اس وقت بچے تھے نے کہا اے اللہ کے سول آپ رو رہے ہیں۔جب مصری گائیڈ کی زبان کی لرزش ختم ہوئی تو اور اس کی پروفیسنل ازم اس پر حاوی ہو ئی تو بتایا عمر بن خطاب جب امیرالمومنین تھے تو بلال کو یا سیدی لکھا کرتے تھے۔سب زائرین کے دل پسیج چکے تھے مگر جب حسن و حسین اس اذان کا زکر کیا جو بلال نے نبی کے شہر میں آخری بار دی تھی تو اس کے بھی آنسو بہہ رہے تھے۔اس لمحے مجھ پر انکشاف ہوا سب سے بڑا خراج اور عقیدت کے آنسو ہوتے ہیں۔ آنسو ایسی گواہی ہے جس پر والدین یقین کرتے ہیں۔ہم سفر یقین کرتے ہیں۔ معاشرہ یقین کرتا ہے۔ صاھبان علم یقین کرتے ہیں۔اور سب سے بڑھ کر خود خدا اس پر یقین کرتا ہے۔ اللہ کا تو اعلان ہے زبان کی بجائے آنکھوں سے نکلنے والا ایک قطرہ،  زیادہ  نہیں صرف ایک قطرہ انسان کی تقدیر بدل کے رکھ دیتا ہے۔ بات عزت کی ہو رہی تھی۔ بلال کے نام پر اللہ کے رسول نے جو مہر عزت ثبت کی تھی اج بھی اس کی حرمت قائم ہے اور اس کا مظہر یہ ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ مساجد بلال کے نام سے موسوم ہیں۔


علم کی دو اقسام ہیں۔ ایک حاصل کیا جاتا ہے مگر دوسرا عطا کیا جاتا ہے۔جو عطا کیا جاتا ہے وہ بھی کتابوں میں درج ہے۔ آصف بن بلخیا کے پاس کتاب کا علم تھا۔ نتیجہ ایک سیکنڈ کے دسویں حصے میں سامنے آ گیا تھامگرحاصل کرنے والا علم اج ہزااروں سال بعد بھی وہ اس توجیح کی کھوج میں ہے کہ کیسے مادہ توانائی میں تبدیل کر کے منتقل کیا گیا اور منتقلی کے بعد اسے مادی شکل میں بدل دیا گیا۔ 


علم اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ مشہور قول ہے کہ انسان محد سے لحد تک علم سیکھتا ہے۔ یہ بھی سنتے ہیں کہ طالب علم کے قدموں کے نیچے فرستہ پر بچھاتا ہے۔ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ علم کتابوں میں ہے۔ یہ بھی معلوم ہے کتاب استاد پڑھاتے ہیں۔یہ بھی سچ ہے کہ پیاسا کنوین کے پاس جاتا ہے۔ایک شور ہے ایک اواز ہے اور یہ آواز اکیلی نہیں ہے بلکہ ایک ٹولے کی آواز ہے جو استادوں کی مذمت کرتا ہے۔نبیوں کے علم پر سوال اٹھاتا ہے۔اور خدائے علیم کے علم کی دلیل مانگتا ہے۔ ان کا مقصد حق کی تلاش نہیں بلکہ حجت بازہے، یہ گروہ نیا نہیں ہے ماضی میں یہی گروہ نبیوں اور رسولوں کے جادوگر کہتا تھا۔ اللہ کے دوستوں پر تبرہ کرتا ہے۔کتابوں کے مصنفوں کا ٹھٹھہ اڑایا، علماٰ اور مشائخ کے لباس کا تمسخر اڑایا۔ اولیاٗ کی قبروں پر پڑی چادرون کا مذاق بنایا۔ یہ مسلمانوں کے اندر کا گروہ ہے مگر یہ علمی توانائی باہر سے پاتا ہے۔ اس گروہ نے کبھی سرسید احمد خان کی زبان سے روح الامین کے وجود سے انکار کیا تو پرویز کی زبان سے قران کی آیات ماننے کا کہہ کر حدیث رسول کا انکار کیا۔ان کو اللہ کا قران مطمن کر پاتا ہے نہ اللہ کے رسول کے فرمان کو قران پر منطبق کر پاتے ہیں۔ ان کا علم ادھورا ہے اسی لیے کتابوں اور ویڈیو کلپس کی صورت مین چھلکتا ہے۔ 


دنیا میں دو ہی آفاقی مذہب مانے جاتے اور چار کتابوں کے نزول پر اتفاق ہے۔ تین کتابیں تو بنی اسرائیل پر اتری تھیں۔ عیسی ابن مریم بھی یہود پر ہی اتارے گئے تھے۔ ان کو مصلوب کرنے کا دعوی یہود ہی کا ہے۔ ان ہی کا ان فرقہ عیسائی کہلایا۔ یہودیوں کے بعد امت محمدیہ وہ اکلوتی امت ہے جو اس وقت امییین تھے۔ ئیہودی اس وقت بھی انھیں امی کہا کرتے تھے آج بھی ان کے اقوال بدلے ہیں نہ خیالات۔دونوں میں بنیادی فرق علم ہی کا ہے۔ وہ اس علم کو مانتے ہیں جو دلیل سے ثابت ہو چکا ہوتا ہے۔ مسلمان اس علم کو مانتے ہیں جو واقع ہو جانے کے بعد بنی آدم کو دلیل تلاش کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ جن پر علم نازل ہوا انھوں نے مردوں کو زندہ کیامگر ایک وقت آئے گا علم حاصل کرنے والے اسے دلیل سے ثابت کریں گے۔ جب وہ اس علم کو حاصل کر لیں گے تو زندہ کرنے کا علم ان کے پاس ہوگا۔ عطا کردہ علم کے حامل ہمیں بتا گئے ہیں علم کے بل بوتے پر زندہ انسان کو مردہ کیا جائے گا اور پھر مردے کو زندہ کیا جائے گا۔ اگر عطا کردہ علم والوں نے مٹی سے پرندہ بنا کر اڑایا تو یہ دھاتوں سے جسم بنائیں گے اور اس میں جان ڈال کر اسے اڑائیں گے کہ ساخت کا علم ان کے پاس ہو گا۔ مگر روح نہ ڈال سکیں گے کہ روح بنانے کا عمل تخلیق کائنات سے پچاس ہزار سال قبل مکمل ہو چکاہے۔ وہ ماں باپ کے بغیر بچہ پیدا کر دکھائیں گے مگر رحم اور مادہ تولید ٹخلیق نہ کر پائیں گے۔ وہ مرض پر قابو پاتے پاتے ایسی امراض ایجاد کر لیں گے جن کا علاج ان کے پاس نہ ہوگا۔ یہ لمبی لسٹ ہے۔ مگر علم وہ ہوتا ہے جو سادہ ہو۔ اور ہر کسی کی سمجھ میں آتا ہو۔

 

کسی نے دعوی کیا ہے کہ تہذیبیں دو ہیں جو لباس اور طرز رہائش سے پہچانی جاتی ہیں۔ حقیقت میں یہ دعوی جھوٹا ہے۔ تہذیب لباس یا طرز رہائش سے نہیں پہچانی جاتیبلکہ کھانے کے طریقے سے پہچانی جاتی ہے۔مجھ پر اس کا انکشاف انیس سو چوراسی میں اس وقت ہوا جب میں اسلام آباد کی فلائٹ پکرنے کے لیے دوبئی کے ائر پورٹ پر اترا۔ ظہر کی نماز کے بعد کھانے کی عادت نے ریسٹورنٹ کی طرف اہنمائی کی۔ ہماری میز کے ساتھ چار نوجوانوں کا مقامی ٹولہ پہلے سے موجود تھا۔ کھانے کا  آرڈر کر چکا تھا، ہمارے دیکھتے ان کو فرنچ ڈش سرو کر دی گئی۔ نوجوانوں نے چھری کانٹا پکڑا اور دونوں ہاتھوں  سے کھانے کے ساتھ کشتی شروع کردی۔ مگر عجیب واقع یہ ہوا کہ ایک نوجوان نے چھری کانٹا سائیڈ پر رکھا اور اونچی آواز میں کہا  خلی ولی اور استین چڑھا کر دائیں ہاتھ سے کھانا شروع کر دیا۔ اسی لمحے میرے ذہن ہمارے استاد اعلی،  ہمارے رہنما و آقا اللہ کے نبی اور رسول کا فرمان روشنی بن کر چمکا کہ شیطان دونوں ہاتھوں سے کھاتا ہے۔ اسی لمحے منکشف ہوا کہ تہذیبوں کا تصام طرز رھائس اور طرز لباس میں نہیں بلکہ کھانے کی طرز میں ہے۔ 


ہمارے عطا کیے گئے علم کے ناقد، ہمارے بزرگوں کے اقوال کے نکتہ چین، ہمارے آستانوں کو شرک کے معبد بتانے والے اور ہمارے علماے کرام کو دو رکعت کا مولوی کہنے والے جب گھر میں کھانا کھاتے ہیں تو دونوں ہاتھوں سے کھاتے ہیں۔ تو ہمارا دل و قلب بنی الامی کی فراست، علم وذن اور طریقہ ہدائت پر عقیدت کے سبب ان کے حضور ناز  اور شان عالی مین جھک جاتا ہے کہ کیا عظیم رسول ہیں کہ زمین پر کھڑے ہو کر آسمانوں میں تصرف کرتے ہیں مگر ان کی تعلیم کس قدر سادہ ہے۔ 


بھلے شاہ نے اسی سادہ عطا کردہ علم کا  جب حاصل کیے گئے پیچیدہ علم  سے موازنہ کیا تو بولے  علموں پئے رولے ہور۔ علم کی بھول بھلیوں اور لیزر کی رنگین چکا چوند میں نوئم سٹی تو آباد ہو جائے گا مگر جو سادگی ہمارے آقا و مولا نے سنت کی شکل میں چھوڑی ہے اور نازل کر دہ علم اپنے اقوال کی صورت میں چھوڑا ہے اس میں سادگی ہے۔ سادگی میں عافیت ہے۔ سادہ رہیں۔ سادہ و فقیر منش استادوں کو سنیں، سادہ تعلیمات کو سینے سے لگائیں۔ اسلام سادہ ہے۔ دین سادہ ہے۔ نبی سادہ ہیں۔ نبی کا کلام سادہ ہے۔ پیغام بھی سادہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تہذیبیں دو ہی ہیں ایک ٹہذیب وہ دائیں ہاتھ سے کھاتی ہے اور دوسری وہ جو دونوں ہاتھوں سے کھاتی ہے۔ 

وما علیہ نا الاالبلاغ

 

Comments

Popular posts from this blog

وحی الہی اور عقل

Lecture 1