Posts

وحی الہی اور عقل

Image
میرے حلقہ احباب میں اج کل یہ بحث زور پکڑ چکی ہے کہ حواس خمسہ اور عقل کی موجودگی میں انسان اس مقام تک پہنچ چکا ہے کہ اس کو وجدان اور وحی کی ضرورت نہیں ہے ۔  اس سوچ کا محرک کچھ ایسی حقیقتیں ہیں جن کو عقلی طور پر رد کرنا ممکن نہیں ہے ۔ انسانی عقل نے جب ادراک کر لیا زمین چپٹی نہیں بلکہ گول ہے تو یورپ میں وحی الہی کے پیروکاروں نے اپنی کتابوں کی روشتی میں اس بات کو کفر کہا اور جب Gallilo نے عقل کی روشتنی میں بتایا زمین سورج کے گرد گھومتی ہے ۔ اس کے خلاف مزہبی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا  1633 میں اسے عمر قید کی سزاسنائی گئی اور 1642 میں قید کے دوران ہئ اس کی موت واقع ہو گئی ۔ جب   Brunoe نے بتایا کہ کرہ ارض کے ساتھ ساتھ دوسری دنیائیں بھی ہیں تو مذہب نے مزاحمت کی اوراس کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور 1600 میں اسے زندہ جلادیا گیا ۔  کیا مزہب عقل کو نہیں مانتا ؟ یہ سوال ہے جو پچھلے سات سو سالوں سے پوچھا جا رہا ہے ۔ مگر فیصلہ نہیں ہو پا رہا ۔  پہلے ہم ۤاپ کو عقل کی کارستانی بارے تاریخ اسلام کے ایک عالم دین کا اپنے مریدوں کے نام لکھا خط نقل کرتے ہیں ۔ یہ خط قران پاک کی تفسیرجمالین فی جلالین سے نقل ہے :

Lecture 1

علم نافع کی سب بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ انسان کے وجود کو با ادب بنا دیتا ہے ۔ اور ادب تقسیم کرنے والے کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے پیرو کاروں کو با ادب بنا دیتا ہے۔ یہ ادب بڑا ثمر خیز ہوتا ہے ۔ یہ ادب ہی تھا جب ایک مرید اپنے پیر کی جوتیوں کو سر پر رکھ کر نکلتا ہے تو رستے میں ایک تاجر اس جوتیوں کے عوض اس مرید کی ضروریات سے بڑھ کر قیمت لگاتا ہے ۔ ادب کا ایک واقعہ میرے پیر و مرشد حضرت چھوٹے لالہ جی سرکار کا ہے ۔ میرے ہم عمر لوگ جانتے ہیں راولپنڈی کی مال روڈ پر جہاں ای ایف یو کی بلڈنگ ہے ۔ اس کے سامنے ایک پٹرول پمپ ہوا کرتا تھا۔ حضرت پیر سید مہر علی ان کے بعد بابو جی سرکار اور ان کے بعد لالہ جی دونوں بھائی بھی اس پٹرول پمپ روزانہ شام کو ایا کرتے تھے۔ اس پمپ پر میرے پیر و مرشد سے ایک نوجوان نے سرگوشی کی ۔ تھوڑی دیر بعد حضرت لالہ جی نے اپنے پرس سے سو سو روپے والے دو نوت نکالے اور اس نوجوان کو عطا فرما دیے ۔ نوجوان کو مگر گلہ تھا کہ اس کا کام دو سو روپے سے نہیں ہو پائے گا ۔ مجھے اس نوجوان کی شکل اور الفاظ یاد رہ گئے ۔ میرے مرشد کے انتقال کے بعد میں اسی پٹرول پمپ والی جگہ سابقہ پٹرول پمپ کے مالک کے

Lecture 2

ب ابا بھلے شاہ نے کہا تھا  (علموں پئے رولے ہور) بھلے شاہ کا مقصد مقصد علم کی مذمت ہر گز نہیں تھا  بلکہ یہ بتانا مقصود  تھا کہ علم ایک سمندر ہے جب علم کا طالب اس میں اترتا ہے تو اس کو علمی سمندر میں ایک سے بڑھ کر دوسری پہیلی  دوسری حل کرنے کو ملتی ہے۔ طالب علم ابھی نبی اللہ داود  اور سلیمان  کے عدل کی گتھی سلجانے میں مصروف تھے کہ یوسف علیہ السلام کے کرتے نے حضرت یعقوب علیہ السلام کی انکھوں کو روشن کر کے علم کے پیاسوں کے سامنے ایک اور بھرا پیالہ رکھ دیا۔ابھی حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی معافی کا معمہ حل نہیں ہوا تھا کہ مچھلی کے پیٹ سے کے اندر سے اٹھنے والی فریاد کے جواب پر علماٗ ششدر رہ گئے۔مردوں کو زندہ کرنے اور ہاتھیوں کے اگے بڑہنے کے انکار پر توجیح ڈہونڈ بھی نی پائے تھے کہ فالج زدہ عاشق نے ایک قصیدہ لکھ کر اپنا  (بردا)  لہرایا دیا۔ حیرتوں کے کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ علم بٹا تو عالم بھی بٹ گئے۔ مگر علیم نے اول دن سے ابن آدم کو علم سیکھنے کا سلیقہ سکھا دیا تھا۔ ارضی علوم نظریہ پیش کر کے اس کی توضیح ڈہونڈتا ہے جب کامیاب ہو جاتے ہیں تو نظریہ کا کلہ ٹھوک دیا جاتا ہے۔ ایک مساوات معرض وجود میں آ